مباہلہ ميں اہلبيت(ع) کي شركت
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ (عَلَى الْكَاذِبِينَ(٦١
سورة آل عمران - آیت 61
عبدالرحمان بن كثير نے جعفر بن محمد، ان كے والد بزرگوار كے واسطہ سے امام حسن (ع) سے نقل كيا ہے كہ مباہلہ كے موقع پر آيت كے نازل ہونے كے بعد رسول اكرم(ص) نے نفس كى جگہ ميرے والد كو ليا، ابنائنا ميں مجھے اور میرے بھائي كوليا، نساءناميں ميرى والدہ فاطمہ (ع) كو ليا اور اس كے علاوہ كائنات ميں كسى كو ان الفاظ كا مصداق نہيں قرار ديا لہذا ہميں ان كےا اہلبيت (ع) گوشت و پوست اور خون و نفس ہيں، ہم ان سے ہيں اور وہ ہم سے ہيں
(امالى (ع) طوسى 564 / 1174 ، ينابيع المودة 1 ص 165 / 1)
116_ جابر رسول اكرم(ص) كے پاس عاقب اور طيب ( علماء نصارى ) وارد ہوئے تو أپ نے انھيں اسلام كى دعوت دى ، ان دونوں نے كہا كہ ہم تو پہلے ہى اسلام لاچكے ہيں ، آپ نے فرمايا كہ بالكل جھوٹ ہے اور تم چار ہو تو ميں بتا سكتاہوں كہ تمھارے لئے اسلام سے مانع كيا ہے؟ ان لوگوں نے كہا فرمايئے
فرمايا كہ صليب كى محبّت ، شراب اور سور كا گوشت اور يہ كہہ كر آپ نے انھيں مباہلہ كى دعوت ديدى اور ان لوگوں نے صبح كو آنے كا وعدہ كرليا، اب جو صبح ہوئي تو رسول (ص) اكرم نے على (ع) ،فاطمہ(ع)، حسن (ع) ، حسين (ع) كو ساتھ ليا اور پھر ان دونوں كو مباہلہ كى دعوت دى ليكن انھوں نے انكار كرديا اور سپر انداختہ ہوگئے۔
آپ نے فرمايا كہ خدا كى قسم جس نے مجھے نبى بناياہے كہ اگر ان لوگوں نے مباہلہ كرليا ہوتا تو يہ وادى آگ سے بھر جاتى ، اس كے بعد جابر كا بيان ہے كہ انھيں حضرات كى شان ميں يہ آيت نازل ہوئي ہے فقل تعالو ندع ابنائنا و ابنائكم و نسائنا و نسائكم و انفسنا و انفسكم ...
شعب نے جابر كے حوالہ سے نقل كيا ہے كہ انفسنا ميں رسول اكرم(ص) تھے اور حضرت على (ع) ، ابنائنا ميں حسن(ع) و حسين (ع) تھے اور نسائنا ميں فاطمہ (ع) - (دلائل النبوة ابونعيم 2 ص 393 / 244 ، مناقب ابن المغازلى ص 263 / 310 العمدة 190 / 191 ، الطرائف 46 / 38)
117: زمخشرى كا بيان ہے كہ جب رسول اكرم(ص) نے انھيں مباہلہ كى دعوت دى تو انھوں نے اپنے دانشور عاقب سے مشورہ كيا كہ آپ كا خيال كياہے؟ اس نے كہا كہ تم لوگوں كو معلوم ہے كہ محمد اللہ كے رسول (ص) ہيں اور انھوں نے حضرت مسيح (ع) كے بارے ميں قول فيصل سناديا ہے اور خدا گواہ ہے كہ جب بھى كسى قوم نے كسى نبى بر حق سے مباہلہ كيا ہے تو نہ بوڑھے باقى رہ سكے ہيں اور نہ بچے نپپ سكے ہيں اور تمھارے لئے بھى ہلاكت كا خطرہ يقينى ہے ، لہذا مناسب ہے كہ مصالحت كرلو اور اپنے گھروں كو واپس چلے جاؤ۔
دوسرے دن جب وہ لوگ رسول اكرم(ص) كے پاس آئے تو آپ اس شان سے نكل چكے تھے كہ حسين (ع) كو گود ميں لئے تھے، حسن (ع) كا ہاتھ پكڑے ہوئے تھے فاطمہ (ع) آپ كے پيچھے چل رہى تھيں اور على (ع) ان كے پيچھے اور آپ فرمارہے تھے كہ ديكھو جب ميں دعا كروں تو تم سب آمين كہنا۔
اسقف نجران نے يہ منظر ديكھ كر كہا كہ خدا كى قسم ميں ايسے چہرے ديكھ رہاہوں كہ اگر خدا پہاڑ كو اس كى جگہ سے ہٹانا چاہے تو ان كے كہنے سے ہٹا سكتا ہے، خبردار مباہلہ نہ كرنا ورنہ ہلاك ہوجاؤگے اور روئے زمين پر كوئي ايك عيسائي باقى نہ رہ جائے گا_
چنانچہ ان لوگوں نے كہا يا ابا القاسم ہمارى رائے يہ ہے كہ ہم مباہلہ نہ كريں اور آپ اپنے دين پر رہيں اور ہم اپنے دين پر رہيں ؟ آپ نے فرمايا كہ اگر مباہلہ نہيں چاہتے ہو تو اسلام قبول كرلو تا كہ مسلمانوں كے تمام حقوق و فرائض ميں شريك ہوجاؤ ان لوگوں نے كہا يہ تو نہيں ہوسكتاہے
فرمايا پھر جنگ كے لئے تيار ہوجاؤ، كہا اس كى بھى طاقت نہيں ہے، البتہ اس بات پر صلح كرسكتے ہيں كہ آپ نہ جنگ كريں نہ ہميں خوفزدہ كريں، نہ دين سے الگ كريں، ہم ہر سال آپ كو دو ہزار حلّے ديتے رہيں گے، ايك ہزار صفر كے مہينہ ميں اور ايك ہزار رجب كے مہينہ ميں اور تيس عدد آہنى زر ہيںچنانچہ آپ نے اس شرط سے صلح كرلى اور فرمايا كہ ہلاكت اس قوم پر منڈ لارہى تھي، اگر انھوں نے لعنت ميں حصہ لے ليا ہوتا تو سب كے سب بندر اور سور كى شكل ميں مسخ ہوجاتے اور پورى وادى آگ سے بھر جاتى اور اللہ اہل نجرات كو جڑ سے اكھاڑ كر پھينك ديتا اور درختوں پر پرندہ تك نہ رہ جاتے اور ايك سال كے اندر سارے عيسائي تباہ ہوجاتے _
اس كے بعد زمخشرى نے يہ تبصرہ كيا ہے كہ آيت شريف ميں ابناء و نساء كو نفس پر مقدم كيا گيا ہے تا كہ ان كى عظيم منزلت اور ان كے بلندترين مرتبہ كى وضاحت كردى جائے اور يہ بتادياجائے كہ يہ سب نفس پر بھى مقدم ہيں اور ان پر نفس بھى قربان كيا جاسكتاہے اور اس سے بالاتر اصحاب كساء كى كوئي دوسرى فضيلت نہيں ہوسكتى ہے_( تفسير كشاف 1 ص 193 ، تفسير طبرى 3 ص 299 ، تفسير فخر الدين رازى ص8 ص 88 ، ارشاد 1 ص 166 ، مجمع البيان 2 ص 762 ، تفسير قمى 1 ص 104)
واضح رہے كہ فخر الدین رازى نے اس روايت كے بارے ميں لكھا ہے كہ اس كى صحت پر تقريباً تمام اہل تفسير و حديث كا اتفاق و اجماع ہے
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ (عَلَى الْكَاذِبِينَ(٦١
سورة آل عمران - آیت 61
عبدالرحمان بن كثير نے جعفر بن محمد، ان كے والد بزرگوار كے واسطہ سے امام حسن (ع) سے نقل كيا ہے كہ مباہلہ كے موقع پر آيت كے نازل ہونے كے بعد رسول اكرم(ص) نے نفس كى جگہ ميرے والد كو ليا، ابنائنا ميں مجھے اور میرے بھائي كوليا، نساءناميں ميرى والدہ فاطمہ (ع) كو ليا اور اس كے علاوہ كائنات ميں كسى كو ان الفاظ كا مصداق نہيں قرار ديا لہذا ہميں ان كےا اہلبيت (ع) گوشت و پوست اور خون و نفس ہيں، ہم ان سے ہيں اور وہ ہم سے ہيں
(امالى (ع) طوسى 564 / 1174 ، ينابيع المودة 1 ص 165 / 1)
116_ جابر رسول اكرم(ص) كے پاس عاقب اور طيب ( علماء نصارى ) وارد ہوئے تو أپ نے انھيں اسلام كى دعوت دى ، ان دونوں نے كہا كہ ہم تو پہلے ہى اسلام لاچكے ہيں ، آپ نے فرمايا كہ بالكل جھوٹ ہے اور تم چار ہو تو ميں بتا سكتاہوں كہ تمھارے لئے اسلام سے مانع كيا ہے؟ ان لوگوں نے كہا فرمايئے
فرمايا كہ صليب كى محبّت ، شراب اور سور كا گوشت اور يہ كہہ كر آپ نے انھيں مباہلہ كى دعوت ديدى اور ان لوگوں نے صبح كو آنے كا وعدہ كرليا، اب جو صبح ہوئي تو رسول (ص) اكرم نے على (ع) ،فاطمہ(ع)، حسن (ع) ، حسين (ع) كو ساتھ ليا اور پھر ان دونوں كو مباہلہ كى دعوت دى ليكن انھوں نے انكار كرديا اور سپر انداختہ ہوگئے۔
آپ نے فرمايا كہ خدا كى قسم جس نے مجھے نبى بناياہے كہ اگر ان لوگوں نے مباہلہ كرليا ہوتا تو يہ وادى آگ سے بھر جاتى ، اس كے بعد جابر كا بيان ہے كہ انھيں حضرات كى شان ميں يہ آيت نازل ہوئي ہے فقل تعالو ندع ابنائنا و ابنائكم و نسائنا و نسائكم و انفسنا و انفسكم ...
شعب نے جابر كے حوالہ سے نقل كيا ہے كہ انفسنا ميں رسول اكرم(ص) تھے اور حضرت على (ع) ، ابنائنا ميں حسن(ع) و حسين (ع) تھے اور نسائنا ميں فاطمہ (ع) - (دلائل النبوة ابونعيم 2 ص 393 / 244 ، مناقب ابن المغازلى ص 263 / 310 العمدة 190 / 191 ، الطرائف 46 / 38)
117: زمخشرى كا بيان ہے كہ جب رسول اكرم(ص) نے انھيں مباہلہ كى دعوت دى تو انھوں نے اپنے دانشور عاقب سے مشورہ كيا كہ آپ كا خيال كياہے؟ اس نے كہا كہ تم لوگوں كو معلوم ہے كہ محمد اللہ كے رسول (ص) ہيں اور انھوں نے حضرت مسيح (ع) كے بارے ميں قول فيصل سناديا ہے اور خدا گواہ ہے كہ جب بھى كسى قوم نے كسى نبى بر حق سے مباہلہ كيا ہے تو نہ بوڑھے باقى رہ سكے ہيں اور نہ بچے نپپ سكے ہيں اور تمھارے لئے بھى ہلاكت كا خطرہ يقينى ہے ، لہذا مناسب ہے كہ مصالحت كرلو اور اپنے گھروں كو واپس چلے جاؤ۔
دوسرے دن جب وہ لوگ رسول اكرم(ص) كے پاس آئے تو آپ اس شان سے نكل چكے تھے كہ حسين (ع) كو گود ميں لئے تھے، حسن (ع) كا ہاتھ پكڑے ہوئے تھے فاطمہ (ع) آپ كے پيچھے چل رہى تھيں اور على (ع) ان كے پيچھے اور آپ فرمارہے تھے كہ ديكھو جب ميں دعا كروں تو تم سب آمين كہنا۔
اسقف نجران نے يہ منظر ديكھ كر كہا كہ خدا كى قسم ميں ايسے چہرے ديكھ رہاہوں كہ اگر خدا پہاڑ كو اس كى جگہ سے ہٹانا چاہے تو ان كے كہنے سے ہٹا سكتا ہے، خبردار مباہلہ نہ كرنا ورنہ ہلاك ہوجاؤگے اور روئے زمين پر كوئي ايك عيسائي باقى نہ رہ جائے گا_
چنانچہ ان لوگوں نے كہا يا ابا القاسم ہمارى رائے يہ ہے كہ ہم مباہلہ نہ كريں اور آپ اپنے دين پر رہيں اور ہم اپنے دين پر رہيں ؟ آپ نے فرمايا كہ اگر مباہلہ نہيں چاہتے ہو تو اسلام قبول كرلو تا كہ مسلمانوں كے تمام حقوق و فرائض ميں شريك ہوجاؤ ان لوگوں نے كہا يہ تو نہيں ہوسكتاہے
فرمايا پھر جنگ كے لئے تيار ہوجاؤ، كہا اس كى بھى طاقت نہيں ہے، البتہ اس بات پر صلح كرسكتے ہيں كہ آپ نہ جنگ كريں نہ ہميں خوفزدہ كريں، نہ دين سے الگ كريں، ہم ہر سال آپ كو دو ہزار حلّے ديتے رہيں گے، ايك ہزار صفر كے مہينہ ميں اور ايك ہزار رجب كے مہينہ ميں اور تيس عدد آہنى زر ہيںچنانچہ آپ نے اس شرط سے صلح كرلى اور فرمايا كہ ہلاكت اس قوم پر منڈ لارہى تھي، اگر انھوں نے لعنت ميں حصہ لے ليا ہوتا تو سب كے سب بندر اور سور كى شكل ميں مسخ ہوجاتے اور پورى وادى آگ سے بھر جاتى اور اللہ اہل نجرات كو جڑ سے اكھاڑ كر پھينك ديتا اور درختوں پر پرندہ تك نہ رہ جاتے اور ايك سال كے اندر سارے عيسائي تباہ ہوجاتے _
اس كے بعد زمخشرى نے يہ تبصرہ كيا ہے كہ آيت شريف ميں ابناء و نساء كو نفس پر مقدم كيا گيا ہے تا كہ ان كى عظيم منزلت اور ان كے بلندترين مرتبہ كى وضاحت كردى جائے اور يہ بتادياجائے كہ يہ سب نفس پر بھى مقدم ہيں اور ان پر نفس بھى قربان كيا جاسكتاہے اور اس سے بالاتر اصحاب كساء كى كوئي دوسرى فضيلت نہيں ہوسكتى ہے_( تفسير كشاف 1 ص 193 ، تفسير طبرى 3 ص 299 ، تفسير فخر الدين رازى ص8 ص 88 ، ارشاد 1 ص 166 ، مجمع البيان 2 ص 762 ، تفسير قمى 1 ص 104)
واضح رہے كہ فخر الدین رازى نے اس روايت كے بارے ميں لكھا ہے كہ اس كى صحت پر تقريباً تمام اہل تفسير و حديث كا اتفاق و اجماع ہے