(شاعرِ اہلیبیت نجم آفندی (مرحوم
21 دسمبر 1975ء کو اردو کے نامور مرثیہ گو شاعر نجم آفندی کراچی میں وفات پاگئے۔ حضرت نجم آفندی کا اصل نام میرزا تجمل حسین تھا اور وہ 1893ء میں آگرہ کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے‘ ان کے والد بزم آفندی‘ دادا مرزا عباس علی ملیح‘ پردادا مرزا نجف علی بلیغ اور پردادا کے بھائی مرزا جعفر علی فصیح‘ سب شاعری کے شغل سے وابستہ رہے تھے۔ مرزا جعفر علی فصیح کو حاجیوں کی خدمت کرنے پر سلطنت عثمانیہ کی جانب سے آفندی کا خطاب ملا تھا۔ تب سے یہ خطاب نسلاً بعد نسلاً ان کے افراد خاندان کے ناموں کا جزو بن گیا۔
نجم آفندی نے‘ دس بارہ برس کی عمر سے ہی شاعری کا آغاز کردیا تھا ابتدا غزل سے کی مگر پھر مذہبی شاعری کی طرف راغب ہوئے اور اس میں اتنا کمال بہم پہنچایا کہ ناصر الملک نے انہیں شاعر اہل بیت کا خطاب عطا کیا۔
حضرت نجم آفندی نے مرثیے‘ نوحے‘ قصائد اور رباعیات کے لاتعداد مجموعے یادگار چھوڑے‘ ان کی کلیات کائنات نجم کے نام سے دو جلدوں میں اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔
اپریل 1971ء میں حضرت نجم آفندی‘ بھارت سے ترک سکونت کرکے پاکستان آگئے‘ جہاں وہ کراچی میں مقیم ہوئے۔ پاکستان میں اہل علم نے ان کی بھرپور پذیرائی کی مگر فقط ساڑھے چار برس بعد 21 دسمبر 1975ء کو کراچی ہی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
نجم آفندی نے‘ دس بارہ برس کی عمر سے ہی شاعری کا آغاز کردیا تھا ابتدا غزل سے کی مگر پھر مذہبی شاعری کی طرف راغب ہوئے اور اس میں اتنا کمال بہم پہنچایا کہ ناصر الملک نے انہیں شاعر اہل بیت کا خطاب عطا کیا۔
حضرت نجم آفندی نے مرثیے‘ نوحے‘ قصائد اور رباعیات کے لاتعداد مجموعے یادگار چھوڑے‘ ان کی کلیات کائنات نجم کے نام سے دو جلدوں میں اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔
اپریل 1971ء میں حضرت نجم آفندی‘ بھارت سے ترک سکونت کرکے پاکستان آگئے‘ جہاں وہ کراچی میں مقیم ہوئے۔ پاکستان میں اہل علم نے ان کی بھرپور پذیرائی کی مگر فقط ساڑھے چار برس بعد 21 دسمبر 1975ء کو کراچی ہی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
مشہور کلام جو ہم اب تک سنتے رہتے ہیں
1. پیاسا رہا جانِ نبی (ص) ، اے وائے نہرے علقمہ
2. خدا کی راہ میں کارے نمایاں ایسے ہوتے ہیں
3. اے مارکہِ قوت اسلام کے جوہر
No comments:
Post a Comment